افسانہ - سلامتی ؟سعادت حسین پاکستان کے شہر کوئٹہ میں رھتے تھے ان کے دو بیٹے اور ایک بیٹی تھی ، ان کا تعلق انتہائی شریف اور مزھبی گھرانے سے تھا وہ بہت ایمانداری سے ر ز ق حلال کما کر اپنے بچوں کو پال پوس رھے تھے وہ کسٹم کے محکمہ میں ملازم تھے عام طور پر پاکستان یا کسی بھی ایسے ملک میں جہاں رشوت اپنا حق سمجھ کر لی جاتی ھے میں اس طرح کی نوکری ھو تو وارے نیارے ھو جاتے ھیں لوگ اتنا دولت جمع کر لیتے ھیں کہ ان کی کئی نسلیں عیش سے کھا سکتی ھیں لیکن سعادت حسین ان لوگوں میں سے تھے جو خدا کو ہر گھڑی حاضر ناظر جانتے ھوئے ایک لمحہ بھی غفلت نھیں برتتے ھیں اور اپنا ہر عمل اجر ثواب ، گناہ سب کا خود کو خدا کے سامنے جواب دہ ھونا ایمان سمجھتے ھیں ، پھر اللہ بھی ایسے لوگوں کو پسند کرتا ھے اور آخرت میں ایسے لوگوں کے لئے اجر عظیم کی نوید سنائی گئی ھے - سعادت حسین کے بڑے بیٹے عباس نے ایم بی اے کیا تو اس کو بنک میں اچھی جاب مل گئی چھوٹے بیٹے نے ایف ایس سی کی تو ضد کرنے لگا اس کو باہر کے ملک جانا ھے وھیں جا کر پڑھے گا بھی اور نوکری بھی کرے گا بیٹے کی ضد اور خواہش پر سعادت حسین نے وراثت میں ملی کچھ جائداد بیچ دی اور بیٹے علی کو امریکہ بھیجوا دیا جہاں اس نے جلد ھی کام بھی ڈھونڈ لیا اور مزید تعلیم بھی حاصل کرنے لگا جس سکول میں وہ پڑھ رھا تھا وھیں اس کی جان پہچان کیتھرین سے ھوئی وہ بہت حساس اور کم گو لڑکی تھی جو عام امریکی لڑکیوں سے مختلف تھی ادھر علی بھی ایسا ھی تھا بہت نفیس اور علٰی مزاج کا بہت سمجھدار اور اپنے کام سے کام رکھنے والا یو بہت جلد یہ دونوں ایک دوسرے کے قریبی دوست بن گئے اپنی اس دوستی کا زکر علی نے اپنے گھر والوں سے بھی کیا ، کیوں کہ علی انٹر نیٹ کے زریعے روزانہ گھر پاکستان میں بات کیا کرتا تھا بلکہ اب تو کیتھرین بھی اس کے گھر والوں سے بات کرتی تھی اور وہ لوگ بھی بہت اپنایئت جتاتے تھے کیوں کہ علی کے والدین بہت اچھے اخلاق کے مالک تھے ، وہ ہر ایک سے بہت محبت اور خلوص رکھتے تھے - پیار محبت ان کا شیوہ تھا ، کیتھرین علی سے اتنا متاثر ھوئی کے اس نے اس کو شادی کے لئے پرپوز کر دیا جسے علی نے اپنے گھر والوں کی مرضی سے قبول کر لیا - یوں شادی کے بعد دونوں ایک ساتھ رھنے لگے کیتھرین بہت خوش تھی لیکن اس کی والدہ اس کی شادی سے ناخوش تھیں وہ نھیں چاھتی تھی کیتھرین مسلم مذہب قبول کرے اور ایک مسلمان سے شادی کرے اس کی نظر میں مسلمان دہشت گر د ھوتے ھیں احساس درد یا ھمدردی مسلمانوں میں نھیں ھوتی دوسرا یہ عورتوں پر ظلم کرتے ھیں ، اس نے بیٹی کو بہت سمجھایا لیکن کیتھریں نھیں مانی تھی اس نے کہا وہ اسلام کا مطالعہ بہت اچھی طرح سے کر چکی ھے اور دل و دماغ سے سوچ سمجھ کر مسلمان ھوئی ھے وہ اسلام کو ایک سچا مذہب مانتی ھے اور مسلمانوں کو امن پسند ، برد بار اور مدبر سمجھتی ھے ، ویسے حقیقت میں تھا بھی ایسے کیوں کہ وہ جس کو جان کر سمجھ کر اسلام لانے پر مجبور ھوئی تھی علی تھا بھی ایسا بہت ملنسار ھمدرد بر د بار پر سکون رھنے والا انسان تھا ، یوں دونوں کی زندگی بہت پر سکوں گزرنے لگی کیتھرین جس نے مسلم ھونے کے بعد اپنا نام فاظمہ رکھا تھا دو پار علی کے ساتھ پاکستان بھی ھو کر آئی تھی وہاں جاکر وہ اور بھی خوش ھوئی تھی اس کو سب نے بہت پیار دیا تھا علی کے والدین جنھیں کیتھرین فاظمہ امی ، اور بابا ھی کہہ کر بلاتی تھی اس کو ایسے چاھنے لگے تھے جیسے وہ ان کی اپنی ھی سگی بیٹی ھے ۔ علی کا بڑا بھائی اور بھن نے بہت پیار دیا اسے باکل احساس نا ھونے دیا کہ وہ اجنبی ھے اور ملک کی رھنے والی ، ایک بار تو جب وہ پاکستان گئی تھی تو علی کے بھائی کی شادی تھی وہاں بھی جس طرح دلہن کے جوڑے بنائے گئے اس کے بھی اسی طرح سے جوڑے بنوا کر دئے علی کی والدہ نے ، ان تمام حالات میں کون ھے جو خود کو خوش قسمت نا سمجھے - بس ایسے ھی خوش قسمت خود کو فاطؐمہ بھی سمجھتی تھی ، اور اس کا اظہار وہ اکثر کیا بھی کرتی تھی اس کا کہنا تھا کہ یہ سب خوشیاں اور پر خلوص رشتے ؐ، یہ محبتیں اسے مذہب اسلام کی برکتوں سے ملی ھیں جو اللہ رسول و آلہ رسول ص کی طرف سے اس کے لئے انعام ھیں - لیکن قسمت کو کچھ اور ھی منظور تھا وہ نھیں جانتی تھی کی اس کی خوشیوں کو انسانی وہشی پن درندگی ڈس لے گی ، ایک دن اس کی خوشیؤں کو گرہن لگ جائے گا ،ایک دن پاکستان سے فون کال آئی کہ علی کے والد اور بھائی دونوں ایک بم بلاسٹ کا شکار ھو کر شھید ھو گئے ھیں ، وہ ایک مجلس جو زکر حسین ع س کی مجلس تھی میں شرکت کے لئے گئے تھے وہآں پر ظالم درندوں نے خود کش حملہ کیا جس میں 110 کے قریب لوگ شھید ھو گئے علی کے بھائی اور والد بھی ایک ساتھ وہآن گئے تھے تو وہ بھی موقع پر ھی دم توڑ گئے علی پر تو جیسے قیامت ٹوٹ پڑی اس نے ایک دو دن میں تکٹ کا بندوبست کیا اور پکستان آگیا جہاں اس کی والدہ اور بیوہ بھابی بہت غمزدہ حال تھیں اب گھر میں صرف علی ھی مرد بچ گیا تھا وپ خود بھی بہت پریشان تو تھا لیکن مرد تھا اسے حوصلہ کرنا تھا بھابی اور ماں کو سہارہ دینا تھا بہت حوصلہ اور ھمت سے کام لے کر اس نے اپنے والد اور بھائی کی قل خوانی اور تمام رسومات ادا کیں ، اس دوران اس نے سوچا اب پاکستان میں ماں کو اکیلا چھوڑ کر نھیں جائے گا کیوںکہ بھابی بھی اپنے والدین کے گھر رھنے پر اصرار کر رھی تھی ، یہی بات اس نے اپنی والدہ سے کھی کہ وہ آپ کے کاغزات بنا رہا ھے اور آپ کو ساتھ لے جائے گا ، اس کی والدہ نے کہا مجھے امام عالی مقاام حسین علیہ السلام کے روضہ مبارک کی زیارت کے لئے لے جاؤ پھر تمام رشتہ داروں نے بھی علی کو یہی مشورہ دیا کہ ٹھیک کہتی ھیں والدہ کو زیارت کے لئے لے جاؤ دل کو سکون ملے گا تم بھی تو زھنی طور پر پریشان ھو مولا کی زیارت کو جاؤ تو وہ مدد کریں گے حوصلہ ملے گا ، انھیں دنوں ایک قافلہ کربلا کو جانے کی تیاری میں تھا علی بھی والدہ بچوں کو لے کر قافلہ کے ساتھ روانہ ھوا ، لیکن کیا کیا جائے اس جنونیت کا اس وہشی پن کا درندگی کا جسے اپنا کر انسان انسانیت کے معیار سے گر جاتا ھے اور خون خار بھیڑیا بن کر اپنے جیسے انسان کا خون بہانے لگتا ھے اپنے منصب کو بھلا بیٹھتا کہ اللہ نے اسے دنیا میں کس مقصد کے لئے بھیجا ھے اور پھر ادھر سے جانے کے بعد آگے بھی ایک ذندگی ھے جس میں اس سے اللہ نے پوچھ گچھ کرنی ھے اور ایسی زندگی جہاں اسے اس کے اچھے برے کام کی جزا و سزا ملنی ھے جو کبھی نا ختم ھونے والی ھو گی ، کاش کہ انسان سوچتا اللہ نے اسے عقل دی شعور دیا ھے ، لیکن ظالم غفلط کا شکار رھتا ھے اور اپنے نفس کا غلام ھوتا ھے ادھر بھی ایسے ھی اپنے نفس کے غلاموں نے ظلم کمایا اور زواری پر جانے والی بس میں ریموٹ کنٹرول سے دھماکہ کیا گیا ، جیسے علی کی موقع پر شہادت ھو گئی اور بھی 30 لوگ شھید ھوئے جن میں بچے بھی تھے علی کا بیٹا بھی شھید ھو گیا اور اسقدر جھلس گیا زنددہ جل گیا ،علی کی بیوی فاطمہ ا، بیتی اور والدہ بچ گئیں لیکن فاطمہ اس طرح سے بچی تھی کہ اس کی ایک تانگ کٹ گئی اور وہ اپاھج ھو گئ ، ادھر امریکہ میں اس کی والدہ کو پتا چلا اس نے حکومتی سطع پر کوشش کر کے اپنی بیٹی کو واپس امریکہ بلا لیا ، فاطمہ کیتھرین اپاھج بنی ایک گورمنٹ کے ادارے میں پڑی سارا دن سوچتی ھے کیا ملا اس نے صحیح کیا تھا مسلمان ھو کر کسی مسلمان سے شادی کرنا صحیح تھا کسی مسلمان ملک میں جا کر رہنا صحیح تھا ، لیکن ان تمام باتوں کے باوجود اس کے ساتھ خوبصور ت اور حسین یادیں بھی ھیں جو ایک سچے مسلمان گھرانے کی ھیں ، یہ زیادہ تکلیف دہ بات ھوتی ھے جب اس کی والدہ جب بھی اس ملتی ھیں تو یہی بات دھراتی ھیں دیکھ لیا کیسے ھوتے ھیں مسلمان اور کیسے ھوتا ھے ان کے ساتھ ان کے ملک میں رھنا میں نا منع کرتی تھی تمھیں کاش کہ تم مان گئی ھوتی ،
مزاحیہ کہانی - اف یہ ھمدردیاں شکیل اعلی عہدے پر سرکاری افسر تھا اس کی پوسٹنگ جس شہر میں تھی وہاں اس نے کافی جان پہچان بنا لی تھی کیوں کہ تنخواہ کے علاوہ بھی وہ اوپر کی آمدنی پر دل و جان سے یقین رکھتا تھا اور اس طرح سے پیسہ کمانے میں زرا برابر بھی دیر نھیں کرتا تھا - ہر جائز ناجائز کام کرنے کی وجہ سے اس کی مقبولیت بہت بڑھ گئی تھی ، شکیل کو ایک روز قریبی شہر میں اپنے سالے کی تیمار داری کے لئے جانا پڑا کیوں کے یہ اس کی بیوی کا حکم تھا پھر دفتر میں کام کی وجہ سے وہاں زیادہ رک بھی نھیں سکتا تھا یوں کیوں اگلی صبح اسے پھر دفتر جانا تھا یوں وہ اپنے سالے کی خیریت دریافت کرنے کے لئے گیا اور دو گھنٹہ وہاں رکا اور واپس آگیا جب واپس آرہا تھا تو اس کا ایکسیڈ نٹ ھو گیا اس کو چوٹیں آئیں اس کا پاؤں سیٹ توٹ جانے کی وجہ سے سیٹ میں دب گیا جس وجہ سے پاؤں پر کافی سوجن آگئی تھی - اس کے ڈرائیور کو اس سے بھی زیادہ چوٹیں آئیں تھیں - اس طرح جب وہ اپنے شہر پہنچے تو اس کے ایکسیڈنٹ کی اطلاع جنگل کی آگ کی طرح شہر میں پھیل گئی کیوں کہ وہ سرکاری افسر تھا کوئی معمولی آدمی نھیں تھا ہزاروں لوگوں کو اس سے کام پڑتا تھا لہذا اس کی خیریت پوچھنے والوں کا بھی جھمگھٹا لگ گیا ، اس کا ڈرائیور غریب آدمی تھا اس کو چوٹ بھی زیادہ آئی تھی لیکن کسی نے اس کی خیریت دریافت نا کی سوائے اس کے اپنے گھر والوں کے - بلکہ ایک دن کی چھوٹی کے بعد وہ اپنی ڈیوٹی پر بھی آگیا - جب کہ شکیل ابھی چھٹی پر تھا اور شہر کے لوگ جوق در جوق اس کی خیریت دریافت کرنے آرہے تھے اور ساتھ مٹھائیاں اور پھل فروٹ بھی لا رھے تھے ، جو شخص بھی پوچھنے آرہا تھا آتے ھی پہلے یہ سوال کرتا کیا ھوا صاحب کس طرح سے ایکسیڈنٹ ہوا شکیل بتاتے بتاتے اکتا گیا تھا سب ھی پوری تفصیل سننے پر اصرار کرتے تھے اس کو شروع سے ھی بتانا پڑتا کہ وہ اپنے سالے کی خیریت پوچھنے قریبی شہر جارہا تھا سامنے سے تیز رفتار ٹرک آرہا تھا اس سے اس کی گاڑی ٹکرا گئی تھی بس پھر یہ چوٹ آگئی سب ھی پوچھتے کون سی گاڑی تھی گاڑی کا نقصان کتنا ہوا پھر وہ بتاتا گاڑی میرے دفتر کی وین تھی ، اور اس کا زیادہ نقصان ںھیں ہوا معمولی ڈینٹ پڑے ھیں بس ، اس طرح آنے والے ساتھ جو چیز بھی کھانے کی چیزیں ساتھ لاتے زیادہ پیار جتاتے ھوئے شکیل کو اپنے ہاتھ سے کھلانے پر بضد ھوتے اور زبردستی اس کے منہ میں ٹھونستے ، یوں مٹھا زیادہ کھانے کی وجہ سے اس کا شوگر لیول بڑھ گیا تھا ، اکثر لوگ مٹھائی یا کیک کے ڈبے میں ہزاروں روپئے کے نوٹ بھی رکھ کر لاتے تھے اور ساتھ ھی یہ بھی کہہ دیتے کے ھمارا کام آپ کے آفس میں پھنسا ھے آپ دفتر میں جاتے ھی برائے مہربانی وہ کروادیں ، یعنی ان کے آنے کا اصل مقصد بھی یہی ھی ھوتا تھا ، ایک معمولی چوٹ کو اس کے ظاہری خیر خواہوں نے مصیبت بنا دیا - ------ اب اس کو پاؤں میں درد ھو رہا تھا اس کی بیوی نے آیئوڈیکس لگا کر پٹی باندھ دی کیوں کہ وہ زیادہ وقت بیٹھا رہتا تھا ، پھر شکیل کی بیوی کے ایک رشتہ دار بھی شکیل کے ایکسیڈنٹ کے بارے سن کر خیریت دریافت کرنے آئے ان کا آنا شکیل کے لئے مزید پریشانی کا باعث بنا انھوں نے آتے ھی پوچھا ارے شکیل بھائی یہ کیا آپ نے معمولی پٹی باندھی ھے جب کہ حادثہ کی وجہ سے چوٹ آئی ھے میں ابھی میرے ایک جاننے والے ھیں ان کو بلاتا ھوں وہ چوٹ دیکھتے ھی بتا دیتے ھیں کی کس طرح کی چوٹ ھے ھڈی ؤغیرہ اگر ٹوٹ گئی ھو تو اس کا بھی علاج کرتے ھیں شکیل منع کرتا رہ گیا لیکن موصوف کب ماننے والے تھے شکیل کی بیوی سے کہا بہن ان کو سمجھا ئیں میں ان کے بھلے کی بات کر رہا ھوں یہ کیوں نھیں مان رھے ، بس پھر شکیل کی بیوی نے کہا بھائی صاحب آپ جایئے ان صاحب کو لے آیئے میری زمہ داری ھے یہ علاج کروائیں گے ، اب وہ صاحب فوری گئے اور آئے ساتھ میں ان صاحب کو بھی ساتھ لائے جن کی تعریف میں زمین آسمان ایک کر رھے تھے یوں اس نیم حکیم نے آتے ھی پٹی کھولی اور کہا اہو یہ تو بہت گہری چوٹ ھے اگر یوں ھی چھوڑ دیا گیا تو چوٹ پک جائے گی اور پاؤں کبھی بھی سیدھا نھیں رکھا جا سکے گا میں زور لگا کر اس موچ کو صحیح کردونگا - بس پھر شکیل کی بیوی کو کہا بہن جی آپ ان کے ہاتھ پکڑ لیں اور جو ان صاحب کو لے کر آئے تھے ان کو کہا آپ ان کو زور سے پکڑ لین ھو سکتا ھے یہ درد کی وجہ سے مجھے میرا کام نا کرنے دیں ، بس یوں شکیل دھر لیا گیا اور حکیم صاحب نے زور سے پاؤں کو دبا کر سیدھا کیا جس سے زور سے کڑک کی آواز آئی ان صاحب نے پھر چھوڑ دیا بولے دیکھا اب پاؤن کی ھڈی اپنی صحیح جگہ پر لگ گئ ھے اس لئے یہ آواز آئی ھے ، جب کہ شکیل درد کی وجہ سے بے ہوش ھو گیا جس کا نیم حکیم صاحب نے یہ جواز گھڑا کے میرے علاج کی وجہ سے ان کو سکون آگیا ھے اور یہ سو گئے ھیں ،---- اور اگلے دن شکیل کو شدید تکلیف ھوئی اور ھسپتال لے جایا گیا جہاں اس کے پاؤں کا آپریشن ھوا کیوں کے اب ھڈی سچ میں ٹوٹ گئی تھی ، یو خیریت پوچھنے والوں کی وجہ سے وہ شدید تکلیف میں مبلا ھو گیا ، ادھر آفس سے چھٹیاں ھونے کی وجہ سے اس کے آفیسرز کو بھی پتا چل گیا کہ وہ بیمار ھے لیکن ساتھ ھی یہ پتا چلا کہ وہ آفس کی گاڑی پر اپنے زاتی کام گیا تھا جس کی وجہ سے اس کے آفیسر نے اس کو عارضی طور پر معطل کر دیا اور اس کی انکوآئری کا حکم دیا گیا ، اف ان ھمدردیوں نے اس کا کیا حال کر دیا
افسانہ - اپنا درد ،۔۔۔۔ھم جس کالونی میں رھتے تھے وہاں ابھی اتنا گھر نھیں بنے تھے بس یوں ھمسائے بھی کم ھی تھے لیکن جو بھی تھے سب ایک دوسرے سے محبت اور خلوص کے ساتھ مل جل کر رھتے تھے ، مسجد بھی ھمارے گھر سے قریب تھی اور وہاں کے امام مسجد جنھیں لوگ زیادہ تر ماسٹر صاحب کھتے تھے کیوں کے وہ ایک گورمنٹ سکول میں پڑھا نے کے بعد ریٹائر ھوئے تھے اور اب مسجد کی سرپرستی ان کے زمہ تھی ان کا گھر بھی مسجد کے قریب ھی تھا ویسے ان کے سارے خاندان والوں کا یشہ یہی تھا اس وجہ سے یہ لوگ مولوی بھی کہلاتے تھے ، ان کی ایک بیٹی ثمرین سے میری اچھی خاصی دوستی تھی یہ اپنی بہنوں میں تو درمیانے نمبر پر تھی لیکن بھایئوں سے بڑی تھی ، ثمرین کی بڑی تین بہنوں کی شادیاں ھو چکی تھیں اور تین بھائی تھے ایک سکول میں ماسٹر تھا اور ایک عالم دین بننے کے لئے دوسرے شہر میں تعلیم لے رہا تھا ایک سب سے چھوٹا مڈل کا امتحان دے کر قران پاک حفظ کر رہا تھا ، یوں اب سارا گھر سمبھالے کی زمہ داری ثمرین کی تھی اس نے بھی میٹرک تک حاصل کی تھی - ثمرین کی امی کا انتقال کافی عرصہ پہلے ھوا تھا ثمرین کی گھر میں بہت بات مانی جاتی تھی تمام گھر کی کرنا دھرتا وہ تھی بھائیوں کے رشتہ کی بات بھی اس کے والد ماسٹر صاحب نے اس کے زمہ کی ھوئی تھی کہ اس کا دل جہاں چاھے وہ اپنے بھائی کا رشتہ طے کرے کافی رشتہ دار تھے جو اپنی بیٹیاں اس کے بھائیوں کو دینے کی خواہش رکھتے تھے کیوں یہ لوگ شہر میں رہائش رکھتے تھے جبکہ ان کے رشتہ دار زیادہ تر گاؤں میں رھتے تھے ، ثمرین کا والد بھی چاہتا تھا جلد بڑے بیٹے کی شادی کر دے وہ نوکری والا بھی تھا پھر گھر میں بہو آجانے کے بعد وہ چاہتا تھا کہ ثمرین کی شادی کر دے تاکہ وہ بھی گھر والی ھو جائے اور وہ بھی اپنی زمہ داری سے سبکدوش ھوجائیں - یوں اس کے رشتہ کی بات کرنے کافی لوگ آتے رھتے تھے ماسٹر صاحب کے لئے ان میں سب سے خوشحال لوگوں کو میتخب کرنے میں دشواری ھو رھی تھی ، یہ بات وہ خود کہا کرتی تھی کہ میرے گھر میں ابو ہر وقت میرے بھائیوں سے یہی بات کرتے ھیں کہ کن لوگوں کو رشتہ کی حامی بھری جائے یعنی ھمارے معاشرے کی بہت سی لڑکیوں کی نسبت وہ خوش قسمت تھی کہ گھر میں بھی اس کے فیصلے کا احترام کیا جاتا تھا اور باہر بھی اس کا رشتہ مانگنے والوں کی ایک بڑی تعداد تھی ، انھیں دنوں ثمرین کو ایک شادی کی تقریب میں دوسرے شہر جانا پڑا جو اس کی بہن کا سسرال تھا وہ بڑا شہر تھا جن لوگوں کی شادی تھی وہ کافی کھاتے پیٹے گھرانے کو لوگ تھے کیوں کی جس لڑکے کی شادی تھی اس کا بڑا بھائی ایک دینی مدرسہ چلا رہا تھا اور بہت بڑا مولوی تھا - اس کی تین شادیاں ھو چکیں تھی ایک پہلی بیوی جس سے اس کی شادی کو بیس سال ھو چکے تھے دوسری بیوی کی شادی کو دس سال ھو گئے تھے ، تیسری کی شادی کو 5 سال ھوئے تھے وہ سب سے کم عمر تھی اور مولوی صاحب کی چہتی بیوی بھی تھی لیکں دو سال سے وہ بیمار رھتی تھی جس کی وجہ سے مولوی صاحب کی دل چسپی اب اس میں کم ھو گئی تھی ، یہ تمام باتیں ثمرین نے مجھے بتائیں ثھیں ۔ کیوں کے یہ مولوی اب ثمرین کا رشتہ مانگ رہا تھا جسے اس کے گھر والے خوش نصیبی سمجھ رھے تھے کیوں کہ وہ مولوی پہلی بیویوں کو کھلا خرچ دے رہا تھا اور سب کے ایک جیسے رہنے کے لئے گھر بنوائے ھوئے تھے مجھے جب ثمرین نے بتایا تھا میں حیران ھوئی تھی کہ وہ کس طرح کا آدمی ھے آجکل کے دور میں تو ایک بیوی کا خرچ اتھانا ھی مشکل ھے پھر اور زمہ داریاں الگ بچوں کی تعلیم صحت کا خیال رکھنا ان کی تربیت کرنا وغیرہ - ثمرین کو بھی میں نے سمجھانے کے لئے کہا کہ تم منع کر دو اپنے والد اور بھائیوں کو تمھیں کمی تو نھیں ھے رشتہ والوں کی ،لیکن اس نے مجھے کہا کہ ابو کھتے ھیں جو لوگ بھی میرا رشتہ مانگ رھے ھیں ان میں سے ایک بھی امیری اور جائداد میں اس کے برابر نھیں سب مشکل سے ھی روٹی روزے پوری کرتے ھیں جب کے یہ امیر ھے ، صاحب جائداد بھی ، میں نے اس کہا یہ بھی تو سوچو کی وہ شادی شدہ ھے وہ بھی تین تین بار اس نے کہا ہاں یہ تو ھے لیکن وہ کم عمر عورتوں کا شوقین ھے اور نئی نویلی دلہن کی ھی خاظر کرتا ھے اور اسی کی پاس زیادہ رہتا ھے ارر لاڈ بھی اسی کے اٹھاتا ھے جب مجھ سے شادی ھو گئی تو وہ مجھے ھی زیادہ اہمیت دے گا کیوں کہ اس کی چھوٹی بیوی تو بیمار رھتی ھے وہ اس کے پاس زیادہ نھیں رھتا ، پھر میں نے پہلی بڑی دو بیویوں کے بارے میں پوچھا تو اس نے کہا ان کے پاس کب سے جانا چھوڑ دیا ھے بس اپنے مدرسے میں زیادہ وقت گزارتا ھے اور کبھی کبھار جہاد پر جاتا ھے ، پھر بچوں کا بھی اس نے کہا تمام بیویوں سے ملا کر اس کی آتھ بچے ھیں ، بچوں میں لڑکے پڑھتے ھیں اس کے اپنے مدرسے میں جب کہ لڑکیوں نے نھیں پڑھاتے تو میں نے کہا کل کو تمارے بچے ھوئے ان کو بھی نا پڑھانے دیا تو تم تو خود میٹرک تک پڑھی ھو اس نے کہا نھیں سب کھتے ھیں میں اس کی لاڈلی بیوی بن کر رہوں گی وہ میری ہر بات مانے گا کیوں کہ وہ مجھ سے شادی کرے کے لیئے انتہائی بے چین ھے اس نے میرے ابو سے کہا ھے جو بھی جائداد آپ کھیں وہ لکھ کر دے گا میرے نام لگائے گا ، یوں ثمرین کی اپنی رضامندی اور گھر والوں کی پسند سے شادی ھو گئی اور وہ رخصت ھو کر دوسرے شہر چلی گیئ اب ھم دونوں کا ملنا بہت کم ھو گیا تھا ۔ پھر مجھے بھی ایم اے میں داخلہ لینے کے لئے دوسرے شہر جانا پڑا یوں میں اپنی پڑھائی میں مصروف ھو گئی ۔ پتا نھیں چلا دو سال گزر گئے میں نے ایم اے کرنے کے بعد ایم ایڈ میں داخلہ لے لیا یوں تقریبا دو سال مرے وہاں لگے میں کم ھی گھر جاتی اگر جاتی بھی تو اتنا مصروف دن گزرتے تھے کہ کسی سے ملنا نھیں ھوتا تھا ، ایم ایڈ کے بعد میرے ابو نے مجھے نوکری کی اجازت دے دی مجھے قریب کے ہائی سکول میں نوکری مل گئ میں پڑھانے لگی ، امی کو میری شادی کی فکر ھورھی تھی لیکن میں نھیں چاھتی تھی امی کا اصرار برھتا جارہا تھا ، تو میں نے کہہ دیا آپ کی مرضی ھے جہاں چاھیں میرا رشتہ طے کر دیں میں تیار ھوں ، بس اب امی میرے لئے رشتہ دیکھتی پھر رھیں تھیں اور تما م رشتہ دار جو رشتہ لینے کے امید وار تھے کا تجزیہ کیا جا رہا تھا ، ایک دن میں سکول سے گھر آئی تو امی نے بتایا ماسٹر صاحب کی بیٹی ثمرین آئی تھی تم سے ملنا چاھتی ھے بہت پریشان لگ رھی تھی ، ااور کہہ رھی تھی جب تم فا رغ ھو اور گھر پر ھو تو اس کو بلوا بھیجوں ، میں نے کہا ٹھیک ھے کل اتوار ھے امی میں اس کو بلوا لونگی ، پھر اگلے دن میں نے کام والی مائی کو بھیجا ثمرین سے کہو میں گھر ھوں آجائے - پھر کچھ دیر میں ثمرین آگئی ، میں نے اس کو دیکھا تو بہت خوشی ھوئی کیوں کہ آخر میری دوست تھی اور کافی عرصہ ھم نے ایک ساتھ گزارہ تھا لیکن وہ بہت دکھی تھی اور کمزور بھی بہت ھو رھی تھی جو پہلے تھی گوری چیٹی بھرے جسم والی ثمرین اب نھیں تھی اس کی آنکھوں کی نیچے گہرے کھڈے پڑے تھے اور چہرہ جھریوں اور چھائیوں سے بھرا تھا ، اور بات کرتے کرتے رونے لگتی تھی ، میں نے اس کو تسلی دی کہ حوصلہ رکھو اور تسلی کے ساتھ ساری بات مجھے بتاؤ شاید میں تمھری کچھ مدد کر سکوں ، تو اس نے روتے ھوئے کہا اس کے خاوند کے ساتھ اس کا جھگڑا ھوا ھے کیوں کے وہ اب ایک اور شادی کر رہا ھے کہتا ھے تم اب پہلے جیسی جوان نھیں رھی - مجھے کوئی ایک اور خاندان والے اپنی بیٹی کا رشتہ دینے پر رضامند ھیں جو سولہ سال کی جوان ھے اور حسین بھی ھے اور مرد ھوں مجھے مذھب نے یہ حق دیا ھے کہ میں اپنی پسند سے جسے چاھے شادی کروں اپنی بیوی بنا کر گھر لے آؤں ، ، مرد چاھے تو وجہ بتائے بغیر بھی طلاق دے سکتا ھے میں نے اور شادی کرنے پر احتجاج کیا تو اس نے گھر نکال دیا میرے چار بچے ھیں وہ بھی میرے ساتھ ھیں اور میں ابو کے گھر آگئی ھوں ، میں نے کہا تم نے گھر کیوں چھوڑا یہ کوئی نئی بات تو نھیں تھی کہ وہ اور بیوی لے آئے تم سے پہلے بھی تو اس کی بیویاں تھیں وہ بھی تو تم نے برداشت کیں ھیں ، اس نے کہا یہی تو رونا ھے اور دکھ کی بات بھی وہ جب نئی شادی کرتا ھے تو صرف اس کا ھی زیادہ خیال رکھتا ھے -رہتا بھی اس کے ساتھ ھے مجھ سے بھی جب شادی ھوئی تھی تو وہ اپنی پہلی بیویوں سے ملنے کم ھی جاتا تھا یا کبھی کسی تقریب میں ھی ان سے سامنا ھوتا تھا ورنہ بس میرے ساتھ اس گھر میں رہتا تھا جہاں میں ھوتی تھی ، بس خرچ دے دیا کرتا تھا ان کو بھی جو مجھے خرچ دیتا تھا اس کا آدھا ھی ان سب کو دیتا تھا ، پھر وہ خود ھی اپنی اساءشوں کے بارے میں بتانے لگی جو وہ اس کو دیتا تھا ، اس نے کہا اس کے مدرسے چل رھے ھیں ایک تو شہر میں جہاں اندر ھی گھر بھی بنا رکھے ھیں پھر تین مختلف دیہاتوں میں ھیں لوگ اتنا مدد کرتے ھیں زکوۃ فطرانہ کی رقم قربانی کھال وغیرہ رمضان میں تراویح کے لئے اور پھر غیر ملک سے بھی امداد آتی ھے اور ساتھ ھی جب جہادی تربیت کے لئے جاتا ھے تب بھی پیسہ ملتا ھے اور جہاد کے لئے جہادیوں کی بھرتی کرتا ھے اس کے لئے بھی اس کو اچھی رقم ملتی ھے ، جہادی بھرتی کا سن کر مجھے تجسس ھوا میں نے غور سے سنا اور تفصیل پوچھی کیوں کہ میں اپنے پیارے ملک میں آئے دن ھونے والے واقعات جس میں کبھی مسجد کو کبھی امام بارگاہ کو کبھی تعلیمی اداروں کو بم سے اڑایا جاتا ھے کبھی رہائشی کالونیوں میں جاکر بارودی گاڑیاں ٹکرا دی جاتیں ھیں جس سے معصؤم جانیں تو جاتیں ھی ھیں ہزاروں بیوا ھوتی ھیں ہزاروں بچے یتیم ھوتے ھیں ہزاروں ماؤں کی گود اجڑتی ھے بوڑھے والدین کے سہارے چھنے جاتے ھیں - یوں میرے پوچھنے پر اس نے بتایا کی اس کا شوہر افغا نستان جاتا رہتا ھے جہاں وہ جہاد کی تربیت دیتا ھے اور اپنے علاقہ سے بچے بھی جہاد کے لئے بھرتی کرتا ھے جیسے افغانستان میں تربیت کے بعد مختلف علاقوں میں جہاد کے لئے بھیجتے ھیں ،ان میں کوئی کم سن بچے بھی ھوتے ھیں ور کوئی نوجوان بھی کسی کو خود ان کے والدین ثواب کی نیت سے بھیجتے ھیں کوئی خود ھی آجاتے ھیں اور کافی ایسے بھی ھوتے ھیں جن کو ان کے لواحیقین کچھ پیسوں کے عوض بیچ دیتے ھیں ،، میں نے پوچھا تمھارے شوہر کو کیا ملتا ھے یہ سب کرنے سے ، اس نے کہا ایک بچے کو بھرتی کرنے سے اس کو رقم دی جاتی ھے پھر اگر وہ ٹرینینگ دینے کے لئے جائے تو بھی اس کو بھاری رقم دی جاتی ھے لوگ اس کی عزت بھی بہت کرتے ھیں کہ مزہب اسلام کی خدمت کر رہا ھے ، ، اس کی یہ باتیں سن کر مجھے جیسے کرنٹ سا لگا میرے ضمیر نے میرے ااحساس نے مجھے جھنجوڑنا شروع کیا میں پھٹ پڑی اور اس پر برس پڑی ، میں نے پوچھا تمھیں پتا ھے کہ وہ لوگ کس ظرح کا جہاد کر رھے ھیں / تم ٹی وی دکھتی ھوں اس نے کہا ھاں ۔ میں نے پوچھا تین دن ھوئے جو چرچ میں دھماا کہ ھوا اس کے مناضر دیکھے تھے ؟ اور کچھ ماہ پہلے کوئیٹہ میں بھی خود کش حملے ھوئے کراچی میں بھی کس طرح مائیں اپنے بچوں کو رو رھی تھیں کتنی سہاگنیں بیوہ ھوئیں کتنے بچے یتیم ھوئے ۔ تم جسے جہاد کہہ رھی ھو یہ جہاد نھیں قتل عام ھے مظلوموں کا قتل نے گناہوں کا قتل ، یہ ظالم لوگ اللہ رسول صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کیا منہ دکھائیں گے ، گے کیا جواب دیں گے کہ کس طرح اپنے عیش وآرام کی خاطر اپنے مفاد کی خاطر انسانی جانوں کا سودا کرتے رھے ھیں وہ بھی اللہ کا نام لیکر اس خدا کا نام لے کر جو اپنے منکروں کو بھی اتنی کی نعمتیں دیتا جتنا کہ اپنے ماننے والو کو ، جو ایک انسان کے قتل کا پوری انسانیت کا قتل کہتا ھے ، جس کے محبوب رسول خدا صلے اللہ وآلہ وسلم اپنے اوپر گندگی پھینکنے والی عورت کی بھی تیمار داری کرتے نظر آتے ھیں ، اس رسول ص ۔ کے داماد حضرت علی کرم اللہ وجہ دشمن کوزیر کرنے کے بعد بھی صرف اس لئے معاف کر دیتے ھیں کہ ان کی زاتی انا اللہ کی محبت پر غا لب نا آجائے ، - تمھیں اپنے بچوں کی فکر ھے جب کے کوئی ان کی جان نھیں لے رہا ھے کوئی جیتے جی ان کو نھیں جلا رہا ھے - جینے کا حق ان سے نھیں چھنا جا رہا ھے ، تم اس کو اور شادی کرنے سے اس لئے روک رھی ھو کہ اس کی توجہ تم سے کم ھو جائے گی تمھاری مراعات کم جو جائیں گی جب وہ تمھیں اس لے کر گیا تھا تو اس کی پہلی بیویاں بھی تو پہلے سے گھر میں موجود تھیں ان پر کیا گزری ھو گی تم نے سوچا تھا - جب کہ تم خود یہ اقرار بھی کرتی ھو کہ تمھارے وہاں جانے کے بعد اس نے اپنی پہلی بیویوں کو اہمیت دینا چھوڑ دی تھی - اس کی نئی شادی کے بعد تم بھی تو اس کی پہلی بیویوں کی طرح بیوی ھی رہو گی بس زرا اھمیت کم ھو جائے گی تمھاری --- لیکن تم نے سوچا جب وہ تمھیں بیاہ کر لے جانے والا تھا ، تم نے اگر اس وقت احتجاج کیا ھوتا تو آج تمھاری باری نھیں آتی مگر تم نے تو صرف اپنے عیش کے بارے میں سوچا لالچ اور حرص انسان کو انسانیت کے میعار سے گرا دیتا ھے ، مجھے بہت دکھ ھو رہا تھا مجھے لگ رہا تھا یہ عورت نھیں ڈائن ھے جیسے صرف اپنے بچوں کی فکر ھے اپنے پیٹ بھرنے کا پتا ھے جسے صرف یہ احساس ھے صرٖ ف اور صرف اس کو جینا چاھئے اسے جینے کا حق ھے اور انسان فالتو ھیں جنھیں گاجر مولی کی طرح کاٹ دیا جائے یا زنددہ جلا دیا جائے کوئی فرق نھیں پڑتا ، فرق تو جب پڑتا ھے جب اس کے خود کے ساتھ کچھ ایسا ھو - اللہ ھماری رہنمائی فرما ئے آمین
غزل - اب لوٹ آؤ --۔۔۔ب لوٹ آؤ کہ - تمھیں سب یاد کرتے ھیں - میرے ساتھ یہ موسم بھی فریاد کرتے ھیں -چمن کے شوخ سے نظارے - گلوں کے حسین رنگ سارے - ساون کی مدھر بوندیں - تیرا ساتھ ھی ڈھونڈیں - نا اب ھیں پہلی سی صبحیں - نا چڑیاں چہچہاتی ھیں - نا بلبلیں گیت گاتی ھیں - یونہی جب رات ھوتی ھے - نا کوئی جگنو چمکتا ھے - نا روشنی سے بات ھوتی ھے - کہ اب کچھ یاد نھیں رہتا - میں تاریخیں بھول جاتی ھوں - عید پر بھی صف ماتم بچھاتی ھوں - ہر تہوار کو میں یوں رو رو کر مناتی ھوں - یوں اک بار میں نھیں - میں سو سو بار مرتی ھوں -